Saturday, April 16, 2016

Khwaja Moinuddin Chisti Ke Karamat

اسلام علیکم
حضرت خواجه معین الدین کی کچھ کرامات ملاحظه ھوں

کرامات خواجہ ہندالولی :۔

دوران قیامِ بغداد ایک دن خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ وحدالدین، شیخ شہاب الدین سہروردی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ تعالٰی عنہم کی ایک مجلس میں تھے۔ انبیاء علیہم السلام کا ذکر خیر ہو رہا تھا کہ سامنے سے ایک بارہ سال کا لڑکا ہاتھ میں ایک پیالہ لئے جا رہا تھا (دوسری کتابوں میں تیرو کمان کا ذکر ہے) جب بزرگوں کی نگاہیں اس پہ پڑی تو حضرت خواجہ نے فرمایا، یہ لڑکا ایک دن دہلی کا بادشاہ بنے گا۔ چنانچہ یہی وہ لڑکا شمس الدین التمش کے نام سے دہلی کا بادشاہ گزرا ہے۔
زیارتِ کعبہ :۔

حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ ہر سال زیارتِ کعبہ کے لئے بقوت روحانی اجمیر سے تشریف لے جاتے تھے جب کام پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر شب بعد نمازِ عشاء کعبۃ اللہ شریف تشریف لے جایا کرتے تھے اور نمازِ فجر اجمیر میں ادا فرماتے تھے۔
رھزنوں کا تائب ہونا:۔

ایک مرتبہ حضرت خواجہ اپنے مُریدوں کے ساتھ ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ وہاں بسنے والے ڈاکوؤں نے آپ کے مُریدوں پر حملہ کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرت خواجہ نے جب نگاہِ جمال ان ڈاکوؤں پر ڈالی تو وہ کانپنے لگے اور قدموں میں گر پڑے۔ چھینا ہوا سامان واپس کیا اور آپ کے دستِ حق پرست پر سب کے سب مشرف باسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے ان کو چند نصیحتیں فرمائیں۔ جو نہایت گارکر ثابت ہوئیں۔ سب نے رہزنی سے توبہ کی اور پوری عُمر دین حق پر کاربند رہے اور سچائی کا دامن کبھی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
مقتول زندہ ہو گیا :۔

حاکم وقت نے ایک بے قصور شخص کو پھانسی دی اس کی ماں روتی پیٹتی ہوئی خدمتِ خواجہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا بیٹا بے قصور تھا حضور مجھ پر کرم فرمائیں۔ آپ عصا لیکر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ مقتول کے پاس پہنچ کر عصا سے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا اگر تو بے نگاہ قتل کیا گیا ہے تو خدا کے حکم سے زندہ ہوجا اور دار سے نیچے اتر آ۔ مقتول یہ سنتے ہی زندہ ہو گیا اور سولی سے اتر کر آپ کے قدموں پر سر رکھا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔
بُت پرستوں کا تائب ہونا :۔

کلمات الصادقین میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ کا گزر کفار کے ایک بُت کدے کی طرف سے ہوا۔ اس وقت سات کافر بُت پرستی میں مشغول تھے آپ کا جمال جہاں آراء دیکھتے ہی بے بس ہو گئے اور قدموں میں آ کر گر گئے فوراً توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ آپ نے ان میں سے ایک کا نام حمیدالدین رکھ دیا۔ چنانچہ شیخ حمید الدین دہلوی ان سات حضرات میں سے ایک ہیں جنہوں نے شہرت پائی۔

آتش پرستوں کا قبولِ اسلام :۔

ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے

No comments:

Post a Comment